فرانس کے سابق صدر نکولس سرکوزی کو 2007 میں صدارتی انتخابات کے لیے لیبیا سے فنڈز لینے کے جرم میں آج جیل بھیجا جا رہا ہے۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق دائیں بازو سے تعلق رکھنے اور 2007 سے 2012 تک ملک کے صدر رہنے والے نکولس سرکوزی کو ستمبر میں اپنی انتخابی مہم کے لیے لیبیا کے رہنما کرنل معمر قذافی سے مجرمانہ سازش کے تحت رقوم حاصل کرنے کے جرم میں پانچ سال کی سزا سنائی گئی تھی۔
70 سالہ سابق صدر جنہوں نے فیصلے کے خلاف اپیل کی ہے اور اس کو ’ناانصافی‘ قرار دیا ہے، کو پیرس کی لا سانٹے جیل میں رکھا جائے گا۔
انہوں نے 25 ستمبر کو فیصلہ آنے کے بعد صحافیوں سے گفتگو میں کہا تھا کہ ’اگر یہ واقعی مجھے جیل سُلانا چاہتے ہیں تو میں ایسا کر لوں گا مگر اونچے سر کے ساتھ۔‘
جب سابق سربراہ مملکت اپنے گھر سے جیل کے لیے روانہ ہوئے تو ان کے اہل خانہ کی جانب سے ان کے حامیوں سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ ان کے لیے آواز اٹھائیں۔
وہ فیلپ پیٹین کے بعد پہلے فرانسیسی رہنما ہوں گے جن کو جیل بھیجا گیا، فیلپ پیٹین پر نازی ریاست کے ساتھ تعاون کا الزام تھا اور ان کو دوسری عالمی جنگ کے بعد جیل بھیجا گیا تھا۔
جیل کے عملے نے اے ایف پی کو بتایا کہ ان کو نو مربع میٹر کے سیل میں قید تنہائی میں رکھے جا سکتا ہے۔
عملے کے ایک رکن نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ سیل میں رکھنے کا مطلب یہ ہے کہ وہ کسی قیدی کے ساتھ بات چیت نہیں کر سکیں گے اور ان کی کوئی تصویر بھی نہیں لی جا سکے گی۔
قید تنہائی میں رکھے جانے والے قیدیوں کو دن میں ایک بار سیل سے باہر نکالا جاتا ہے تاہم اس دوران بھی وہ چھوٹے سے صحن میں تنہا رہتے ہیں۔
اس بارے میں زیادہ وضاحت موجود نہیں ہے کہ وہ کب تک جیل میں رہیں گے۔
جج نتھالی گاوارینو نے فیصلہ سناتے ہوئے کہا تھا کہ جرائم ’غیرمعمولی نوعیت‘ کے تھے اس لیے سابق صدر کو جیل بھیجنے کا حکم دیا گیا ہے چاہے وہ اس کے خلاف اپیل بھی کریں۔
دوسری جانب نکولس سرکوزی کے وکلا سے توقع کی جا رہی ہے کہ وہ ان کے جیل میں قدم رکھتے ہی رہائی کے لیے درخواست دائر کر دیں گے اور اپیل کورٹ کے پاس اس کا جائزہ لینے کے لیے دو ماہ کا وقت ہو گا۔
نکولس سرکوزی کو 2012 میں دوبارہ الیکشن ہارنے کے بعد سے قانونی پریشانیوں کا سامنا تھا۔