صاحب کہنے لگے یار اچھا نہیں لگتا کہ سب بیگمات کے ساتھ آئے ہیں جبکہ ہم اکیلے۔ مار پڑے گی اُسے۔ آپ کو آ نا ہی نہیں چاہیے تھا


مصنف:شہزاد احمد حمید
قسط:327
 اکبر نورجہاں کے لیزر شوکا خاص طور پر سیکرٹریٹ میں محکموں کے سیکرٹریوں کی فرمائش پراہتمام کیا گیا تھا۔ مہمان خصوصی صاحب تھے۔شام کو ہم پہنچے تو سبھی سیکرٹری اپنی اپنی بیگمات کے ساتھ آئے تھے۔ صاحب کہنے لگے یار اچھا نہیں لگتا کہ سب بیگمات کے ساتھ آئے ہیں جبکہ ہم اکیلے۔ آپ فون کر کے بیگم صاحبہ کو بلا لیں۔“ وہ بھی آ گئیں۔ بشریٰ گردیزی بھی موجود تھیں۔میں نے پوچھا میڈم آپ کیسے؟“ کہنے لگی؛”مجھے سیکرٹری ہوم نے بلایا تھا۔اب نظریں نہیں ملا رہا۔ ویسے روز مجھے کافی کے لئے فون کرتا تھا۔“میں نے جواب دیا؛”میڈم! وہ کوئی بیوقوف تو نہیں کہ اپنی بیگم کے سامنے آپ سے بات کرے۔ مار پڑے گی اُسے۔ آپ کو آ نا ہی نہیں چاہیے تھا۔“خیر ان کے آنے کا مجھے فائدہ ہوا کہ مجھے ان کی کمپنی مل گئی تھی۔ میری قسمت۔
میڈم ایک بار صاحب سے ملنے کمپلیکس والے دفتر(یہ لوکل گورنمنٹ کمپلیکس کی بلڈنگ میں تھا جہاں ہم لوگوں سے چھپ کر صرف فائل ورک کے لئے جاتے تھے۔) آئیں۔ اسمبلی کا اجلاس بھی شروع تھا۔ ہم جانے لگے تو میڈم صاحب سے بولیں؛”سر! مجھے ڈی جی لوکل گورنمنٹ سے کام ہے۔“ صاحب نے مجھے کہا؛”شہزاد صاحب!میڈم کو ڈی جی سے ملوا کر اسمبلی آ جائیں۔“ ڈی جی کا دفتر تیسرے فلور پر تھا ہم لفٹ میں سوار ہوئے تو انہوں نے نقاب سے مجھے ایسی گھوری کرائی اور چہرے پرایسا تبسم بکھیرا کہ پتھر بھی پگھل جاتا۔ میرے جسم میں جھرجھری دوڑ گئی۔ خیر ڈی جی کے دفتر آئے۔ قہوہ پیا، انہوں نے 2منٹ بات کی اور واپسی کے لئے لفٹ میں سوار ہوئے تو ایک بار پھر مجھے انہی نگاہوں کا سامنا کرنا پڑا۔ 
میں نے نائب قاصد سے کہا؛ ”بیٹا! میڈم کی گاڑی لگواؤ۔“ وہ بولیں؛”مجھے ابھی کچھ دیر رکنا ہے۔ “ہم retiring room   چلے آئے۔ انہوں نے کچھ دیر ذومعنی گفتگو کی۔ چند منٹو ں کی یہ تاکا جھانکی ختم ہو ئی تو وہ ناراضگی میں اٹھیں اور جاتے ہوئے فقرہ کہہ کر گاڑی میں سوار ہو گئیں۔

اسمبلی پہنچ کر صاحب کو بتایا تو بولے؛”میں آپ کی سادگی کا ماتم ہی کر سکتا ہوں۔“ میں نے کہا؛”سر! میں ڈر گیا تھا کہ کہیں انہوں نے کہہ دیا ”شہزاد صاحب! سفید بالوں کا ہی خیال کر لیتے یا وہ آپ کو شکایت لگا دیتیں تو میرے پلے کیا رہ جاتا۔ میں تو عمر بھر آپ سے آنکھ نہ ملا سکتا۔‘‘ مشہود کو امریکہ بات کر کے اسے قصہ سنایا تو زور سے ہنسا اور کہا؛”آپ کی بدقسمتی ہی کہہ سکتا ہوں۔“  
ان کے میاں نے دوسری شادی کر لی۔ گو وزیر کی والدہ نے اپنی دوسری بہو کو قبول ہی نہ کیالیکن ہمارے معاشرے میں عورت دوسری بیوی برداشت ہی نہیں کرتی۔میڈیم کے لئے بھی یہ ناقابل برداشت تھا اور اس کے بعد وہ تنہائی میں ہی کہیں کھو گئی تھیں۔(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔



Related posts

گارڈنر ، آسٹریلیا کے طور پر سدرلینڈ اسٹار نے انگلینڈ کو شکست دی

مسکین حجازی نے کہا قائد اعظم نے عوام الناس کی خوشحالی کیلیے پاکستان بنایا تھالیکن آج ناجائز طریقوں سے دولت میں اضافہ زندگی کا حاصل بن چکا ہے

خلو کارداشیئن نے ٹی وی کے میزبان کے ذریعہ بدنام زمانہ زچگی کے سوال پر خاموشی توڑ دی