بھاپ سے چلنے والی گاڑی کی سیٹی میں کچھ ایسا سحر اور درد ہوتا کہ دل یکدم اداس سا ہو جاتا، ڈار سے بچھڑی کونج کی طرح ہوک سی اٹھتی محسوس ہوتی 


مصنف:محمدسعیدجاوید
 قسط:286
باب2
گاڑی کی مدھ بھری آوازیں 
سویرے والی گاڑی
بھاپ سے چلنے والی گاڑی کی سیٹی میں کچھ ایسا سحر اور درد ہوتا تھا کہ نجانے کیوں اسے سن کر دل یکدم اداس سا ہو جاتا تھا اور اس میں ڈار سے بچھڑی ہوئی کونج کی طرح کی ایک ہوک سی اٹھتی محسوس ہوتی تھی۔چلیں جن کا کوئی آتا جاتا تھا، تو ان پر اس کا اثر ہونا تو فطری عمل ہوتا تھا، لیکن اس کو سن کر ایک عام انسان بھی لمحے بھر کو کچھ بے چین سا ہو جاتا تھا اور اس کے چلتے قدم سست پڑنا شروع ہو جاتے تھے۔
بھاپ کا یہ انجن تھوڑی تھوڑی دیر بعد اور خصوصاً کسی قصبے، گاؤں یا اسٹیشن کے قریب پہنچ کر زوردارسیٹی بجایا کرتا تھا۔ ریل کی پٹری پر کئی جگہ پر ایک چھوٹا اور گول سا ”W“ کا بورڈ لگا ہوا ہوتا تھا جسے دیکھتے ہی ڈرائیور کے ہاتھ خود بخود سیٹی بجانے والی رسی کی طرف بڑھ جاتے تھے۔ کیونکہ ریلوے احکامات کے مطابق یہاں سیٹی بجانا  لازم ہوتا تھا۔ لیکن بعض اوقات تو یوں محسوس ہوتا تھا کہ ڈرائیور اور انجن دونوں ہی اس  اداس سی سیٹی سے اپنے دکھوں اور اداسیوں کا نوحہ بیان کرتے تھے۔
انسان سب کچھ بھول سکتا ہے مگر انجن کی یہ خوبصورت اور مسحور کن سیٹی اس کے ذہن میں پنجے گاڑے بیٹھی رہتی تھی۔ سفر کچھ بھی ہو،کہیں کا بھی ہو، ریل گاڑی کا نام سنتے ہی یہ سیٹی ہم جیسے دْخانی انجنوں سے محبت کرنے والے دیوانوں کے کانوں میں گونجنے اور رس گھولنے لگتی ہے، یونہی بغیر کسی وجہ کے۔ جب کہ اسے تو خاموش ہوئے بھی اب تو مدتیں ہو گئی ہیں۔میر سے معذرت کے ساتھ، ”اب دیکھنے کو انجن آنکھیں ترستیاں ہیں“
نئی نسل کے پیارے بچوں اور نوجوانوں نے سیٹی کی اس مدھ بھری آواز کومحض پرانی فلموں میں ہی دیکھا اور سنا ہو گا خصوصاً ”پاکیزہ“جیسی خوبصورت فلم میں بہترین تصویر کشی اور پس منظر میں بجتی ہوئی موسیقی کے ساتھ ساتھ اس سیٹی کی آواز بھی کانوں میں رس گھولتی ہے۔ مگر ہم جیسے پرانے وقتوں کے لوگ جو حقیقتاً اس دور سے گزر کر آئے ہیں وہ اپنی ایسی ہی کتنی حسین یادیں سمیٹ کر اپنے سینے سے لگائے بیٹھے  ہیں۔
تب وقت کی اتنی پابندی ہوتی تھی کہ آتی جاتی گاڑیوں کی سیٹی کی آواز سے کسی حد تک درست سمے کا اندازہ لگا یا جا سکتا تھا۔کبھی کبھار تو یوں بھی ہوتا تھا کہ اسٹیشن پر کھڑے ہوئے کسی منتظر اور بے چین شخص نے گھڑی کی طرف دیکھا اور پھرخالی پٹری کی طرف نظر دوڑائی تو تب ہی  دور سے سیٹی کی آواز آتی تھی جو کہتی تھی کہ ”غم نہ کر، میں بس پہنچ رہی ہوں“۔اور آج کل جب کہ محکمہ ریلوے والوں کو ہر طرح کی مواصلاتی اور میکانکی سہولتیں میسر ہیں، گاڑی کی آمد میں گھنٹوں کی تاخیر ہوتی ہے۔
(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔



Related posts

صاحب کہنے لگے یار اچھا نہیں لگتا کہ سب بیگمات کے ساتھ آئے ہیں جبکہ ہم اکیلے۔ مار پڑے گی اُسے۔ آپ کو آ نا ہی نہیں چاہیے تھا

گارڈنر ، آسٹریلیا کے طور پر سدرلینڈ اسٹار نے انگلینڈ کو شکست دی

مسکین حجازی نے کہا قائد اعظم نے عوام الناس کی خوشحالی کیلیے پاکستان بنایا تھالیکن آج ناجائز طریقوں سے دولت میں اضافہ زندگی کا حاصل بن چکا ہے