بندوق کی نوک پر بھی خوف کیوں نہیں کھاتے؟ سائنس نے حیران کن راز کھول دیا


اکثر دیکھا گیا ہے کہ کچھ لوگ شدید خطرے یا موت کے خوف کو محسوس نہیں کرتے، چاہے ان کے سر پر بندوق ہی کیوں نہ رکھ دی جائے۔ یہ محض بہادری یا غیر معمولی حوصلے کا معاملہ نہیں بلکہ انسانی دماغ کی پیچیدہ ساخت اور حیاتیاتی نظام کا نتیجہ ہے، جو خطرے کی نشاندہی اور ردعمل کو منظم کرتا ہے۔

خوف ایک جذباتی کیفیت سے بڑھ کر انسانی بقا کا بنیادی عنصر ہے، اور اس کا مطالعہ ہمیں بتاتا ہے کہ کس طرح دماغ اور جسم مل کر ہمارے رویے اور فیصلوں کو شکل دیتے ہیں۔

امریکی خاتون ایس ایم اس کی زندہ مثال ہیں۔ ان کی شناخت حفاظتی وجوہات کی بنا پر راز میں رکھی گئی ہے، مگر ان کا کیس نفسیات اور نیوروسائنس میں اہم مطالعے کا محور بن چکا ہے۔

ایس ایم خاتون کے دماغ کا وہ حصہ جو خوف کے جذبات کو پیدا کرتا ہے، بیماری کی وجہ سے متاثر ہو چکا ہے۔

دماغ کے اس حصے کو امیگڈالا کہتے ہیں اور یہ دو ہوتے ہیں، جن کے متاثر ہونے سے انسان میں بے خوفی کی تبدیلی آتی ہے۔

ایس ایم خاتون اس بیماری کی وجہ سے نہ صرف یہ کہ شدید خطرے میں خوف محسوس نہیں کرتیں بلکہ اس کے تصور کو ذہن میں لا کر بھی ردعمل ظاہر نہیں کر سکتیں، اور یہی حقیقت سائنسدانوں کے لیے انسانی خوف کی پیچیدہ نیورولوجی کو سمجھنے کا ایک نادر موقع فراہم کرتی ہے۔

ان کا کیس نفسیات اور نیوروسائنس میں ایک اہم مطالعے کا محور بن چکا ہے کیونکہ اس سے یہ معلوم ہوا کہ خوف صرف ہمت یا جرأت کا معاملہ نہیں بلکہ دماغی ساخت اور حیاتیاتی عمل کا نتیجہ ہے۔

یہ ایک انتہائی نایاب جینیاتی بیماری، ارباک-ویٹے ( لاحق ہے، جس نے ان کے دونوں امیگڈالا یعنی دماغ کا وہ حصہ جو خوف کو پروسیس کرتا ہے،کو نقصان پہنچایا ہے۔

دنیا بھر میں صرف چند سو افراد اس بیماری میں مبتلا ہیں اور صرف تین لوگوں میں ایس ایم کی طرح دو طرفہ امیگڈالا کی خرابی دیکھی گئی ہے۔

ابتدائی مطالعات میں ایس ایم خاتون کو مختلف خوف پیدا کرنے والی صورتحال میں رکھا گیا، جیسے کہ سانپوں یا مکڑیاں سہنا، خوفناک مکانوں سے گزرنا، یا ماضی کے تکلیف دہ واقعات کو یاد کرنا۔

ان تمام تجربات کے باوجود، ایس ایم خاتون نے کبھی خوف محسوس نہیں کیا بلکہ ان کی دلچسپی اور تجسس زیادہ نمایاں رہا۔

کیا آپ جانتے ہیں دماغ چمکتا ہے، اور یہ آپ کے خیالات کا راز فاش کر سکتا ہے

ایس ایم کی زندگی میں خوف کی غیر موجودگی نہ صرف تحقیقی طور پر اہم تھی بلکہ عملی طور پر بھی خطرناک ثابت ہوئی۔

انہیں کئی بار خطرناک حالات میں نشانہ بنایا گیا، دھمکایا گیا یا چاقو کے زور پر رکھا گیا، اور وہ ہر بار خوف کی علامات دکھائے بغیر ردِ عمل ظاہر کرتی رہیں۔

ماہرین نے ان کے ردعمل کو “فلیٹ” قرار دیا، یعنی دماغ کا وہ حصہ جو خطرے کی اطلاع دیتا ہے، کام نہیں کر رہا تھا۔

ماہرین کے مطابق بیرونی خطرات—جیسے سانپ، چاقو یا کوئی جان لیوا صورتحال—کا احساس بنیادی طور پر دماغ کے حصے امیگڈالا سے جڑا ہوتا ہے۔

اس کے برعکس، اندرونی خطرات مثلاً سانس میں آکسیجن کی کمی، گھبراہٹ کے دورے یا شدید بے چینی، دماغ کے مختلف حصوں اور جسمانی نظاموں کے ذریعے محسوس کیے جاتے ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ خوف کے احساس کا میکانزم انسان کے جسم میں نہایت پیچیدہ اور کئی سطحوں پر بیک وقت کام کرتا ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ اس نئی دریافت نے پینک ڈس آرڈر، اضطرابی بیماریوں اور دیگر نفسیاتی عوارض کی تحقیق پر بھی گہرا اثر ڈالا ہے، کیونکہ یہ پہلی بار واضح ہوا ہے کہ خوف کے مختلف محرکات دماغ کے مختلف حصوں کو فعال کرتے ہیں۔

جس خاتون میں خوف کا احساس موجود نہیں تھا، اسے معمول کی زندگی میں شدید خطرات کا سامنا رہا، کیونکہ وہ ایسے حالات میں بھی محتاط نہ ہوتی جہاں عام انسان فوراً پیچھے ہٹ جاتا۔

تحقیق کے مطابق خوف انسان کی بقا کے لیے بنیادی ضرورت ہے۔ یہی احساس ہمیں خطرات سے خبردار کرتا ہے، محتاط بناتا ہے اور روزمرہ زندگی کے اہم فیصلوں میں رہنمائی فراہم کرتا ہے۔

Related posts

کنیئے ویسٹ کو ایک اور صدمے کی منسوخی کا سامنا کرنا پڑا

اسکارلیٹ جوہسن نے متنازعہ ڈائریکٹر کی حمایت پر ڈبل کیا

امانڈا سیفریڈ کو جلد ہی میجر ایوارڈ ملے گا