گردے کی پیوندکاری کے شعبے میں ایک شاندار پیش رفت سامنے آئی ہے۔ سائنس دانوں نے ایسا ’’یونیورسل‘‘ گردہ تیار کر لیا ہے جو کسی بھی مریض کو لگایا جا سکتا ہے، چاہے اس کا خون کسی بھی گروپ سے تعلق رکھتا ہو۔ اس ایجاد سے ہزاروں مریضوں کے لیے نئی امید جاگی ہے جو سالوں سے گردے کے عطیے کے انتظار میں ہیں۔
یہ کامیابی کینیڈا اور چین کے سائنس دانوں کی مشترکہ تحقیق کا نتیجہ ہے۔ انہوں نے ایک ایسے گردے کو، جو خون کے گروپ ”A“ والے عطیہ دہندہ سے لیا گیا تھا، خصوصی ’انزائمز‘ کی مدد سے خون کے گروپ ”O“ میں تبدیل کر دیا۔
چونکہ گروپ O کو “یونیورسل ڈونر‘‘ سمجھا جاتا ہے، اس لیے یہ گردہ کسی بھی مریض کے جسم سے مطابقت رکھتا ہے۔
تبدیل شدہ گردہ ایک دماغی طور پر مفلوج مریض کے جسم میں، اہلِ خانہ کی اجازت سے، لگایا گیا۔ حیرت انگیز طور پر گردہ کئی دن تک بالکل درست طریقے سے کام کرتا رہا اور جسم نے کوئی شدید ردِعمل ظاہر نہیں کیا۔
یہ تجربہ اس بات کا ثبوت ہے کہ مستقبل میں خون کے گروپ کی مطابقت کے بغیر بھی گردے کی پیوندکاری ممکن ہو سکے گی۔
یہ تحقیق معروف سائنسی جریدے ’’نیچر بایومیڈیکل انجینئرنگ‘‘ میں شائع ہوئی ہے۔
یونیورسٹی آف برٹش کولمبیا کے پروفیسر اسٹیفن وِدرز، جو اس منصوبے کے شریک محقق ہیں، کے مطابق یہ پہلا موقع ہے جب اس تکنیک کو انسانی ماڈل پر کامیابی سے آزمایا گیا۔ انہوں نے بتایا کہ یہ تجربہ طویل المدتی نتائج کو بہتر بنانے کے لیے قیمتی معلومات فراہم کرتا ہے۔
اس منصوبے کی بنیاد ایک دہائی سے زیادہ عرصہ پہلے رکھی گئی تھی، اور اب یہ کامیابی گردے کی پیوندکاری کے شعبے میں ایک تاریخی قدم ثابت ہو سکتی ہے۔
اُس وقت پروفیسر وِدرز اور اُن کے ساتھی ڈاکٹر جیہ چندرن کِزھکیداتھو خون سے وہ شکر والے ذرات الگ کرنے کی کوشش کر رہے تھے جو خون کے گروپس متعین کرتے ہیں۔
بعد ازاں اسی اصول کو گردے کے خلیوں پر لاگو کر کے یہ انقلابی کامیابی حاصل کی گئی۔
ماہرین کے مطابق یہ طریقہ علاج اُن مریضوں کے لیے خاص طور پر مفید ہوگا جو ”بلڈ گروپ O“ رکھتے ہیں، کیونکہ وہ اکثر دوسرے گروپس کے مقابلے میں دو سے چار سال زیادہ انتظار کرتے ہیں۔
اب، چونکہ گردہ خود تبدیل ہو جاتا ہے، مریض کو شدید دواؤں یا مدافعتی نظام دبانے والے علاج کی ضرورت کم پڑے گی۔
اب اگلا مرحلہ ریگولیٹری اپروولز اور انسانی آزمائشوں (کلینیکل ٹرائلز) کا ہے، جنہیں یونیورسٹی آف برٹش کولمبیا سے منسلک کمپنی ’اویوو بائیومیڈیکل‘ کی نگرانی میں انجام دیا جائے گا۔
اگر یہ آزمائشیں کامیاب رہیں تو مستقبل میں خون کے گروپ کی قید ختم ہو جائے گی، انتظار کے طویل سال مہینوں یا ہفتوں میں بدل جائیں گے، اور ہزاروں جانیں بچائی جا سکیں گی۔