مصنف:شہزاد احمد حمید
قسط:326
بڑے گھروں اور دفتروں کے چھوٹے لوگ؛
لاہور ملتان روڈ پر ایک چھوٹا سا کارخانہ ہوا کر تا تھا جہاں موٹروں کی بڑی معیاری ”ہیڈ گیس کٹ“ تیار کی جاتی تھیں۔اس کارخانے کے مالک اپنے کام میں اتنے ماہر تھے کہ آپ انہیں کسی بھی موٹر کی ہیڈ گیس کٹ دکھا کر بنوا سکتے تھے۔ میں نے بھی ایک بار ان سے اپنی موٹر کی ہیڈ گیس کٹ بنوائی تھی۔ یہ کارخانہ ملتان روڈ کی بڑی پرائم لو کیش پر تھا اور اسی جائیداد کے چکر میں ان کے کسی عزیز نے انہیں قتل کر دیا۔ ان کی 2بیٹیاں تھیں اور دونوں ہی اچھی شکلی و صورت کی۔ یہ کسی وساطت سے صاحباٹھ گیا سے ملیں اور پولیس گارڈ کی درخواست کی جو مہیا کر دی گئی۔ ایک روز بہت دنوں کے بعد دفتر آئی تو کچھ پر یشان سی تھی۔ میں نے پوچھا؛”میڈم بڑے دنوں بعد آ نا ہوا۔ خیر تھی۔ آپ کے والد کے مقدمے کا کیا بنا؟“ بتانے لگی ؛”پولیس گارڈ واپس لے لی گئی ہے۔ اسی سلسلہ میں صاحب سے ملنے آئی ہوں۔کل میں ڈی آئی جی سے ملی تھی۔(میرے ذھن سے ڈی آئی جی کا نام نکل گیا ہے۔)وہ ہمدردی سے ملے۔ کہنے لگے؛”شام کو کیا کرتی ہیں آپ۔“ میں نے جواب دیا؛”سر! کچھ خاص نہیں۔ گھر پر ہی ہو تی ہوں۔“ بولے؛”شام کو جم خانہ آ ئیں۔ گپ شپ بھی رہے گی اورسارے مسئلہ بھی حل کر لیں گے۔ شہزاد صاحب!ان بڑے دفتروں میں چھوٹے لوگ بیٹھتے ہیں۔“
صاحب دفتر آئے تو میں نے انہیں یہ بات بتائی۔ بولے؛”لو گوں کا ہمارے دفتر پر اعتماد ہے۔ ویسے توسرکاری دفاتر میں تو اخلاقیات کا جنازہ ہی نکل چکا بلکہ اخلاقیات کو دفنا ہی دیا گیا ہے۔“
بی بی بشریٰ گردیزی؛
مخصوص نشستوں پر منتخب ہو نے والی ایم پی اے پارلیمانی سیکرٹر ی برائے داخلہ تھیں۔ بہاول پور کے معزز گردیزی خاندان سے تعلق تھا اور حسن و خوبصورتی بھی لاجواب تھی۔کنیرڈ کالج نے اس پری چہرہ کا حسن نکھار کر مستانہ کر دیا تھا۔ یہ ہمیشہ کالا برقعہ اور نقاب پہن کر ہی آتی تھیں۔ آدھے محکموں کے سیکرٹری ان کے ساتھ کافی پینے کو ترستے تھے۔ کو نونٹ سکول اور کنیرڈ کالج نے ان کی انگریزن زبان پر مہارت مسلمہ کر دی تھی جبکہ مادری زبان سرائیکی ان کے منہ سے سننے والے کو سحر میں جکڑ لیتی تھی۔ میں کیا پوری اسمبلی ان کی دیوانی تھی۔ میرا دیوانہ پن ہی ایک روز انہیں ان کے میاں کے ساتھ میرے گھر لے آیا۔ میری بیگم انہیں ملنے کے بعد مجھے بولی؛”میں نے زندگی بھر اتنی حسین عورت نہیں دیکھی۔“ یہ ایک عورت کا دوسری کو compliment تھا۔۔ انہیں طلاق کا غم بھی اٹھا نا پڑا جو ہمارے معاشرے میں کسی بھی عورت کے لئے داغ سمجھا جاتا ہے۔ بہاول پور پوسٹنگ کے دوران انہیں بہت تلاش کیا لیکن نا کام رہا۔ مجھے پتہ چلا کہ طلاق کے بعد انہوں نے گوشہ نشینی اختیار کر لی تھی۔ غم انسان کو مار دیتا ہے۔(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔