مصنف:شہزاد احمد حمید
قسط:328
بزگان دین سے عقیدت؛
صاحب کی بزگان دین اور ان کی درگاہوں سے بھی گہری عقیدت تھی۔حضرت داتا گنج بخش ؒ کے مزار پر تو وہ اور بیگم صاحبہ بڑی عقیدت اور باقائدگی سے ہر جمعرات کو جاتے تھے۔ کھڑی شریف(میر پور)، گولڑہ شریف(گولڑہ)بری امام(اسلام آباد)، دیول شریف(مری) اور شلبانڈی شریف کی درگاہوں سے بھی انہیں بڑی عقیدت تھی۔ شلبنڈی شریف کے نوجوان درویش تو اب بڑی شخصیت بن چکے ہیں۔سال بھر کے کچھ ماہ ولایت کی ٹھنڈی فضاؤں میں گزارتے ہیں۔ان درگاہوں کی زیارت پر بھی میں اکثر صاحب کے ساتھ ہی ہو تا تھا۔ دو تین بار مجھے حضرت داتا گنج بخشؒ کے مزار کے اندر جانے کا اتفاق بھی ہوا تھا۔دنیا دار بندے کی بزرگان دین سے ایسی عقیدت کم کم ہی دیکھنے میں ملتی ہے۔ داتا صاحب کے مزار پر پنڈی کے رہنے والے ایک درویش الیاس صاحب بھی عرصہ سے درگاہ کے احاطے سے باہر نہیں گئے تھے۔صاحب کی ان سے اچھی یاد اللہ تھی اور اسی نسبت سے میری بھی ان سے اچھی یاد اللہ ہو گئی تھی۔ ایک روز میں نے ان سے پوچھا؛”سر! آپ گھر کیوں نہیں جاتے۔“ کہنے لگے؛ مجھے ابھی مرشد کا حکم نہیں ہوا ہے۔“ کئی بار ایسا ہوتا کہ وہ اپنی دنیا میں اتنے گم ہوتے کہ لاکھ آ وازیں دو ہاتھ سے ہلاؤ مگر وہ جہاں پہنچے ہوتے وہاں سے انہیں دنیاوی بات یا آواز سنائی ہی نہیں دیتی تھی۔ اللہ والوں کی اپنی دنیا اور اپنا مزاج ہے۔ میری آپ کی سمجھ سے باہر۔بہت عرصہ بعد میں داتا دربار گیا، انہیں بہت تلاش کیا مگر وہ کہیں بھی دکھائی نہ دئیے۔ ایک خادم دربار سے پوچھا تو معلوم ہوا سال پہلے انتقال کر گئے تھے۔ اللہ ان کی قبر کو منور رکھے۔آمین۔داتا دربار بھی سکون پانے کی کمال جگہ ہے۔ ایسی ہی ایک اور جگہ حضرت میاں میرؒ کی درگاہ بھی ہے جن کا میں بڑا معتقد ہوں۔
اے ڈی ایل جی دفاتر میں سہولیات کی فراہمی؛
پرویز الٰہی صاحب خود بھی چیئرمین ضلع کونسل رہے تھے اور وزیر بلدیات پنجاب بھی۔ مقامی حکومتوں کے حوالے سے ان کا وسیع تجربہ تھا۔ اکثر صاحب کو بلدیات کے حوالے سے مفید مشورے بھی دیتے رہتے تھے۔ اس زمانے میں محکمہ لوکل گورنمنٹ کی فیلڈ فور میشن کے حالات اچھے نہ تھے۔ ضلعی دفاتر میں نہ تو گاڑیاں تھیں، نہ ہی ٹیلی فون کے لئے بجٹ اور خیرپیٹر ول کی مد میں تو اتنی رقم ہوتی کہ پیٹرول صرف سونگھا ہی جا سکتا تھا۔صاحب کی توجہ اس طرف مبذول کرائی اور سی ایم کی اجازت سے ہر ضلع کے لئے نئی جیپس، فیکس مشین،ٹیلی فون اورپیٹر ول کے لئے وافر فنڈز مہیا کئے گئے۔یوں اے ڈی ایل جیز کے دفاتر فعال ہوئے۔ دفاتر میں ساری سہو لیات میسر ہو ئیں تو افسران کی کارکردگی میں بھی نمایاں اضافہ ہو گیا۔ان دفاتر کا ویسا سنہری دور پھر کبھی بھی نہ لوٹا۔(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔