مہنگائی آج پاکستان کے لیے محض ایک معاشی مسئلہ نہیں رہی، بلکہ یہ سماجی استحکام اور قومی سلامتی پر بھی اثرانداز ہونے والی صورتِ حال بن چکی ہے۔ جب عوام کی قوتِ خرید گھٹتی ہے تو روزگار، تعلیم اور صحت جیسے بنیادی شعبے متاثر ہوتے ہیں ۔ اس لیے عارضی یا جزوی اقدامات کافی نہیں۔ ہمیں ایک جامع، منصوبہ بند حکمتِ عملی اپنانی ہوگی جس میں صوبائی اور مرکزی حکومتوں کے درمیان مکمل ہم آہنگی ہو۔
منصوبہ بند معیشت کے تحت پہلے مرحلے میں ملکی ضروریات اور برآمدات کا واضح نقشہ تیار کیا جائے۔ اگلے تین سال کے اہداف مقرر کر کے مخصوص علاقوں میں فصلوں کی کاشت متعین کی جائے، تاکہ زمین اور پانی کے وسائل کی حکمتِ عملی سے ترتیب دی گئی تقسیم ممکن بنے۔ اس کا فائدہ یہ ہوگا کہ ہم ضرورت کے مطابق پیداوار بڑھائیں گے اور غیر ضروری درآمدات کو کم کریں گے جس سے روپے کی قدر میں استحکام لانے میں مدد مل سکتی ہے۔
دنیا کے ایسے ممالک جو ریاستی منصوبہ بندی یا مضبوط زرعی پالیسیوں سے فائدہ اٹھا چکے ہیں، جیسے چین اور ویتنام، نے زمین اور فصلوں کے انتظام میں مرکزی رہنمائی کے ذریعے ابتدائی طور پر خوراک کی دستیابی میں بہتری دیکھی، اور بعد ازاں مارکیٹ اصلاحات کے ساتھ پیداوار میں اضافہ کیا۔ ان مثالوں سے سبق یہ ملتا ہے کہ منصوبہ بندی جب عملی مدد اور اصلاحات کے ساتھ ہو تو نتائج آتے ہیں۔
حکومت کو چاہیے کہ ہر فصل کے پیداواری اخراجات، منڈی کے نرخ اور کسان کے منافع کا شفاف فارمولا طے کرے اور کم از کم 30 فیصد حصہ کسان کیلئے یقینی بنایا جائے۔ اس کے علاوہ حکومت کو فصلوں کی خریداری، ذخیرہ اندوزی، مارکیٹنگ اور برآمدات کی ذمہ داری اٹھانی چاہیے تاکہ کسان کو بازار کے اتار چڑھاؤ اور جعلی دلالی سے تحفظ ملے۔ جب کسان کو یقین ہوگا کہ اس کی محنت کا نتیجہ محفوظ رہے گا تو وہ پیداواری سرمایہ کاری اور جدید طریقے اپنائے گا، جس سے مجموعی پیداوار اور معیار بہتر ہوگا۔
پاکستان کا زرعی شعبہ معیشت کا ستون ہے ، یہ ملک کی جی ڈی پی کا بڑا حصہ اور لاکھوں لوگوں کی روزی روٹی کا ذریعہ ہے۔ اسی لیے زرعی استحکام براہِ راست فوڈ سیکیورٹی اور سرحدی سلامتی سے جڑا ہوا ہے؛ خوراک کی کمی سماجی انتشار اور سرحدی نقصانات کا سبب بن سکتی ہے۔
حالیہ برسوں میں آنے والے سیلابوں نے زرعی اراضی اور فصلوں کو بھاری نقصان پہنچایا ہے۔ 2025 کے شدید مون سون اور سیلابی لہروں نے بڑے رقبے ڈبو دیے، نتیجتاً فصلیں تباہ اور فصل کاری کے موسم متاثر ہوئے ، یہ امر فوڈ سپلائی اور برآمدات دونوں کے لیے خطرہ بن چکا ہے۔ حکومت نے کچھ حفاظتی اقدامات اور ریسپانس اپنائے، مگر نقصان بڑے پیمانے پر ہوا، جس سے زمینوں اور کسانوں کا اعتماد مجروح ہوا۔ اس صورتحال نے واضح کر دیا ہے کہ قدرتی آفات کے لیے پہلے سے منصوبہ بندی، ڈھانچے اور کسانوں کو براہِ راست معاوضہ لازم ہے۔
آخر میں، مہنگائی پر پائیدار قابو کے لیے صرف اقتصادی پالیسی ہی کافی نہیں، بلکہ زرعی اصلاحات، کسانوں کو اعتماد دلانا، فعال خریداری و برآمدی نظام، اور موسمیاتی آفات سے بچاؤ کے ٹھوس منصوبے بھی لازم ہیں۔ یہی وہ راستہ ہے جو پاکستان کو ایک مضبوط، خودکفیل اور پُرامن قوم بنا سکتا ہے جہاں کسان کے ہاتھ میں روٹی اور ملک میں استحکام دونوں محفوظ ہوں گے۔
نوٹ: یہ مصنف کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں